AsiaCalling

Home News India بھارت میں متنازعہ فوجی قانون کالعدم قرار دینے کا مطالبہ

بھارت میں متنازعہ فوجی قانون کالعدم قرار دینے کا مطالبہ

ای میل چھاپیے پی ڈی ایف

Download 

بھارت کا آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ چند متنازعہ ترین قوانین میں سے ایک ہے۔ اس قانون کے تحت فوج کو کئی علاقوں میں بہت زیادہ اختیارات حاصل ہیں۔تاہم اب اس قانون کو کالعدم قرار دینے کے مطالبات میں اضافہ ہورہا ہے۔ اسی بارے میں سنتے ہیں جکارتہ انڈونیشیاءکے ریڈیو kbr68h کی آج کی رپورٹ

 

39 سالہ ارم شرمیلا Manipur کے ہسپتال میں زیرعلاج ہیں،ان کی ناک پر ربڑ کی گولی اس وقت لگی جب وہ اپنی ایک نظم پڑھ رہی تھیں۔ارم کو امن کی خوشبو بھی کہا جاتا ہے۔

ارم شرمیلا(female)"میں امن کی مہک اپنے آبائی علاقے سے پوری دنیا میں پھیلانا چاہتی ہوں"۔

شرمیلا نے آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ کے خلاف غیرمعینہ مدت کیلئے بھوک ہڑتال کررکھی ہے۔ انھوں نے گزشتہ گیارہ سال سے کچھ کھایا یا پیا نہیں، بلکہ حکومت کی جانب سے انہیں زبردستی سیال غذا ڈرپ کے ذریعے دی جاتی ہے۔ ارم شرمیلا نے اپنے آبائی قصبے میں سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں دس شہریوں کی ہلاکت کے بعد یہ بھوک ہڑتال شروع کی تھی۔انکا کہنا ہے کہ وہ اپنی بھوک ہڑتال اسی وقت ختم کریں گی جب یہ کالا قانون کالعدم قرار دیا جائےگا۔

شرمیلا(female)"میں ایسے کالے قانون کو کسی صورت برداشت نہیں کرسکتی۔ مسلح افواج ہماری محافظ ہیں، آخر وہ کیوں اپنی طاقت کا غلط استعمال کررہی ہیں۔ میرے لئے یہ بات بہت صدمے کا باعث ہے کہ ہماری حکومت گونگے بہروں جیسا کردار ادا کررہی ہے۔ میری سمجھ نہیں آتا کہ ان کی حکومت کا فائدہ کیا ہے؟"

اس قانون کے تحت سیکیورٹی فورسز کو خانہ تلاشی اور گرفتاریوں کے وسیع اختیارات حاصل ہیں، وہ بغیروارنٹ کسی کو بھی گرفتار یہاں تک کہ ہلاک بھی کرسکتے ہیں۔ ان کے اقدامات کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ یہ قانون بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں علیحدگی پسند تحریکوں پر قابو پانے کیلئے 1958ءمیں متعارف کرایا گیا تھا۔جس کے بعد اس کا اطلاق کشمیر پر بھی کردیا گیا۔ انسانی حقوق کیلئے کام کرنیوالے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو خطرے کی علامت قرار دیتے ہیں۔ میناکشی گنگولی ہیومین رائٹس واچ سے تعلق رکھتی ہیں۔

میناکشی گنگولی(female)"یہ قانون اور اس کے تحت کئے جانیوالے مظالم نے مزید نوجوانوں کو پتھر اور ہتھیار اٹھانے پر مجبور کردیا ہے۔ یہ اب ایک ایمرجنسی قانون ہے، جو پچاس سال سے نافذ ہے۔ اس ملک کے شہریوں کو لگتا ہے کہ انہیں جنگ جیسی صورتحال کا سامنا ہے کیونکہ پچاس سال سے فوج کشمیر میں تعینات ہے"۔

 

Manipur میں 2005ءمیں ہونیوالے خونریز احتجاج کے بعد حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے اس قانون پر عوامی خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے نظرثانی کی۔ Sanjoy Hazrika اس کمیٹی کے ایک رکن ہیں۔

"ہماری سفارشات شفاف اور واضح ہےں کہ اس قانون کو کالعدم قرار دینا ہوگا۔ یہ قانون شمال مشرقی ریاستوں اور کشمیر میں نفرت کی علامت بن چکا ہے۔ یہ لوگوں کے اندر ان اداروں کے خلاف اشتعال پیدا کررہا ہے جن پر انہیں فخر ہونا چاہئے"۔

مگر کمیٹی کی سفارشات کو قبول نہیں کیا گیا۔ عالمی ادارے جیسے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے نے بھارتی حکومت پر اس آمرانہ قانون کو ختم کرنے کیلئے زور دیا ہے۔ حکومت نے اسے ختم کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی مگر عملی طور پر کچھ نہیں کیا۔حال ہی میں کشمیر میں ہزاروں گمنام قبروں کی دریافت کے بعد اس قانون کو کالعدم قرار دینے کے مطالبات میں شدت آئی ہے، یہاں تک کے مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حکومت نے بھی اس مطالبے کی حمایت کردی ہے۔ عمر عبداللہ مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلیٰ ہیں۔

عبداللہ(male)"اس قانون کے چند پہلو ہیں جو فورسز کو ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد اور جرائم سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں، جو میرے خیال میں خطرناک ہے، کیونکہ کسی ملزم کو معاف کرنے سے وہ امن عمل متاثر ہوتا ہے جو آپ کی کوششوں سے آگے بڑھ رہا ہوتا ہے۔کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہ عمل آپ کو لوگوں کا مقروض بنادیتا ہے۔ گزشتہ برس کے مقابلے اس سال لوگ امن عمل کے لئے زیادہ تعاون کررہے ہیں، جس سے حالات کو معمول پر لانے میں مدد مل رہی ہے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس قانون کے ہوتے ہوئے صورتحال معمول پر آسکتی ہے؟"

تاہم سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ہمیشہ کی طرح قانون کو کالعدم قرار دینے کی مخالفت کی جارہی ہے۔ لیفٹننٹ جنرل کے ٹی پٹنائک Patnaik، بھارتی فوج کی شمالی کمان کے سربراہ ہیں۔

"پاکستان مسلسل اپنے دہشتگردوں کے کیمپوں کو برقرار رکھے ہوئے ہے، پاکستان وہ ملک ہے جو کشمیر میں دہشتگردی پھیلانے کا ذمہ دار ہے۔ہمارے خیال میں جب تک پاکستان سے دہشتگردوں کے کیمپس ختم نہیں ہوجاتے قانون یا اس کے کسی جز وکو کالعدم قرار دینا درست نہیں ہوگا"۔

قانون کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ مرکزی حکومت، ریاستی حکومت اور فوج نے مشترکہ طور پر کرنا ہے۔ انسانی حقوق کے لئے سرگرم وکیل Vrinda Grover کا کہنا ہے کہ فوج اپنے اختیارات سے تجاوز کررہی ہے۔

"کشمیر اور شمال مغربی ریاستوں کے عوام سمیت یہ ہم سب کے لئے بدقسمتی سے انتہائی تشویش کی بات ہے۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ فوج اب سیاسی فیصلے بھی کرنے لگی ہے اور یہ بھارتی جمہوریت کے لئے تشویش کا امر ہے"۔

آخری تازہ کاری ( پیر, 21 نومبر 2011 11:10 )  

Add comment


Security code
Refresh